یہ سال ختم ہوا ہے خدا خدا کر کے |
کریں گے اب تو نئی صُبح ہم دُعا کر کے |
ہیں دورِ ابتلا آئے بھی اور گئے ہیں بہت |
گزار ہم نے دئے ہیں سبھی وفا کر کے |
یہ مانتے ہیں کہ ہم ہی قصور وار رہے |
اسی کے سامنے جُھکتے ہیں ہم خطا کر کے |
اسی کے در سے بھری ہے کبھی جو خالی ہوئی |
کہ ہم نے رکھی ہے جھولی تو اپنی وا کر کے |
جو اضطراب ہو منظر عجیب ہوتا ہے |
پکارتے ہیں اسی در پہ سب صدا کر کے |
کچھ ایسا اس سے تعلّق ہے اُستوار اپنا |
کوئی دکھائے ہمیں اُس سے اب جُدا کر کے |
دیا سبق ہے یہی جانے والے لمحوں نے |
ملا جو وقت کریں شُکر ہم غنا کر کے |
ہم ایک شب تو گزاریں کچھ اس طرح طارق |
اسی کو مانگ لیں ہم اس سے التجا کر کے |
معلومات