یہ سال ختم ہوا ہے خدا خدا کر کے
کریں گے اب تو نئی صُبح ہم دُعا کر کے
ہیں دورِ ابتلا آئے بھی اور گئے ہیں بہت
گزار ہم نے دئے ہیں سبھی وفا کر کے
یہ مانتے ہیں کہ ہم ہی قصور وار رہے
اسی کے سامنے جُھکتے ہیں ہم خطا کر کے
اسی کے در سے بھری ہے کبھی جو خالی ہوئی
کہ ہم نے رکھی ہے جھولی تو اپنی وا کر کے
جو اضطراب ہو منظر عجیب ہوتا ہے
پکارتے ہیں اسی در پہ سب صدا کر کے
کچھ ایسا اس سے تعلّق ہے اُستوار اپنا
کوئی دکھائے ہمیں اُس سے اب جُدا کر کے
دیا سبق ہے یہی جانے والے لمحوں نے
ملا جو وقت کریں شُکر ہم غنا کر کے
ہم ایک شب تو گزاریں کچھ اس طرح طارق
اسی کو مانگ لیں ہم اس سے التجا کر کے

1
55
بہت شکریہ راشد ڈوگر صاحب پسندیدگی کے لئے

0