کشش قدرت عطا کرتی ہمیں جو سادگی آتی |
تصنّع سے نہیں چہرے پہ ویسی تازگی آتی |
اگر ہم مسکراہٹ دیکھ کر ان کی غزل کہتے |
ہمارے سارے لفظوں میں یقیناً نغمگی آتی |
اگر ہوتی میسّر ہم کو صحبت پاک لوگوں کی |
تعلّق میں خدا سے خود بخود وارفتگی آتی |
اگر علم و عمل کے ساتھ ہوتا تجربہ شامل |
خیالوں میں ہمارے اور بھی کچھ پختگی آتی |
بصارت میں کئی حیواں بڑھے ہیں چشمِ آدم سے |
بصیرت گر نہ ہوتی کام کیا یہ زندگی آتی |
اگر ہم کھولتے آنکھیں اگر سنتے سمجھتے ہم |
ہمیں بھی پھر خدا ملتا ہمیں بھی بندگی آتی |
خدا کی معرفت کے جام چکھ لیتے ہیں پیاسے جو |
کبھی ہونے میں کم ان کی نہیں یہ تشنگی آتی |
ہمیں طارق انہی راہوں پہ جانا ہے جہاں وہ ہے |
ہمارے راستے میں اب نہیں شرمندگی آتی |
معلومات