کشش قدرت عطا کرتی ہمیں جو سادگی آتی
تصنّع سے نہیں چہرے پہ ویسی تازگی آتی
اگر ہم مسکراہٹ دیکھ کر ان کی غزل کہتے
ہمارے سارے لفظوں میں یقیناً نغمگی آتی
اگر ہوتی میسّر ہم کو صحبت پاک لوگوں کی
تعلّق میں خدا سے خود بخود وارفتگی آتی
اگر علم و عمل کے ساتھ ہوتا تجربہ شامل
خیالوں میں ہمارے اور بھی کچھ پختگی آتی
بصارت میں کئی حیواں بڑھے ہیں چشمِ آدم سے
بصیرت گر نہ ہوتی کام کیا یہ زندگی آتی
اگر ہم کھولتے آنکھیں اگر سنتے سمجھتے ہم
ہمیں بھی پھر خدا ملتا ہمیں بھی بندگی آتی
خدا کی معرفت کے جام چکھ لیتے ہیں پیاسے جو
کبھی ہونے میں کم ان کی نہیں یہ تشنگی آتی
ہمیں طارق انہی راہوں پہ جانا ہے جہاں وہ ہے
ہمارے راستے میں اب نہیں شرمندگی آتی

0
1
41
پسندیدگی کا بہت شکریہ ڈاکٹر راشد محمود صاحب!

0