خواہشوں کو کبھی دامن سے ، بڑھایا ہی نہیں |
اس لئے دل کو کوئی روگ لگایا ہی نہیں |
زندگی گزری ہے کیسے یہ پتہ ہی نہ چلا |
ہم پلٹ جاتے جہاں ، موڑ وہ آیا ہی نہیں |
چاند نکلا شبِ تاریک میں روشن ہو کر |
ہم نے پھر گھر میں دیا کوئی جلایا ہی نہیں |
چاہنے والوں نے چاہا ہے ہمیں جی بھر کے |
ہم نے چاہا جسے، وہ سامنے آیا ہی نہیں |
وہ بہت دور نہ تھا، ہم سے ہی پہنچا نہ گیا |
یہ نہ تھی بات ، ہمیں اس نے بلایا ہی نہیں |
دل تو کیا چیز ہے ہم جاں بھی نچھاور کرتے |
آزمانے کو محبّت ، کوئی آیا ہی نہیں |
دیر تک بیٹھ کے سوچا ہے تری یادوں کو |
ہم نے ان میں سے کسی پل کو بھلایا ہی نہیں |
ہم تو ماضی کا سفر کرنے کو تیار ہوئے |
وقت پر ، ایسا گیا ، لوٹ کے آیا ہی نہیں |
طارق اب اور زمانہ ہے ، ملے کوئی ہمیں |
اجنبی لگتا ہے اپنا بھی، پرایا ہی نہیں |
معلومات