مدّتوں کے بعد پھر سے چین آیا ہے مجھے
اس نے ملنے کیلئے خود گھر بلایا ہے مجھے
دل کے دروازے پہ دستک دینے والا کون ہے
رات کے پچھلے پہر کس نے جگایا ہے مجھے
میں تو کاروبار اہلِ دل سے کچھ واقف نہ تھا
آشنائے دردِ دل کس نے کرایا ہے مجھے
ڈھونڈتا میں پھر رہا تھا در بدر اس کو کہاں
کون پھر کوچےمیں اپنےکھینچ لا یا ہے مجھے
کس نے صحرا میں اتارا نور کا چشمہ رواں
بحرِ ظلمت میں کنارے پر لگایا ہے مجھے
لذّتِ ہجراں میں پوشیدہ کہیں ہے اس کا پیار
دور کر کے خود کو مجھ سے آز مایا ہے مجھے
کب ہے تابِ دید جو حُسنِ ازل ہو رُوبرو
شوق دیکھا جب تو آئینہ دکھایا ہے مجھے
گرمئِ گُفتار سے قائل نہیں ہوتا یہ دل
آتشِ جذبات نے اپنا بنایا ہے مجھے
طارق اس رفتار سے چلتے ہو کیونکر یہ کہو
منزلِ مقصود تک جلدی وہ لایا ہے مجھے

0
67