کانِ کرم سدا ہے بطحا حبیب کا
ہے ذرہ ذرہ جگ کا کھاتا حبیب کا
ان کی عطا سے قطرہ قلزم سے ہے سوا
سیراب ہر طرح ہے بردہ حبیب کا
سگ ان کا کب ہے جاتا اغیار کی گلی
کہتا ہے بس سوا ہے تلوا حبیب کا
ٹکڑوں پہ مصطفیٰ کے میری گزر رہے
پلتا جہاں ہے ہر جا صدقہ حبیب کا
فیاضِ دو جہاں کی کوئی مثل نہیں
جاری ہے ہر زماں میں چرچہ حبیب کا
کوثر ہے چشمہ ان کا یوں سلسبیل بھی
ہر جام ہے چھلکتا یکتا حبیب کا
حسنین کا گدا ہوں نازاں اسی پہ ہوں
محمود مانگوں ان سے صدقہ حبیب کا

48