میں کسی آسمانی آفت میں مارا جاؤں گا
یا دشمنوں کی عداوت میں مارا جاؤں گا
میں کچھ بھی کر لوں مگر چپ نہیں قبول مجھے
میں باغیوں سا بغاوت میں مارا جاؤں گا
کہیں کچھ ایسا بھی الزام سر پہ آئے گا
میں پانی پانی ندامت میں مارا جاؤں گا
نجانے آج ہیں کیوں دوست مہرباں مجھ پر
میں دوستوں کی رفاقت میں مارا جاؤں گا
اگر دھماکوں سے زلزلوں سے اور وباؤں سے
جو بچ گیا تو شرافت میں مارا جاؤں گا
امیدِ وصل پہ زندہ ہوں اب تلک شاہد
نہ تو ملا تو حقیقت میں مارا جاؤں گا

180