جلوہ گاہِ دہر کو رب سے فرماں مل گیا
خاص جامہ مل گیا عام ساماں مِل گیا
تھی مچلتی زندگی ہجر سے بے تاب تھی
دل جلوں کو کارواں اور استھاں مل گیا
کل جہاں میں رونقیں زندگی میں سانس ہے
بزمِ ہستی کو زہے جانِ سلطاں مل گیا
اِس نمودِ خاک کی رستگاری کے لیے
اِک طبیبِ جان سے خاص درماں مِل گیا
ظُلمتِ طاغوت میں بھٹکی تھی مخلوق بھی
ذاتِ والا سے یَقیں اور ایقاں مِل گیا
پا لیا ہستی نے دل نِعمتِ برہان کو
خلق کو پیارا سخی شاہِ شاہاں مِل گیا
بے خبر انسان تھا منزلِ مقصود سے
راہ پیما خیر سے تجھ کو سلطاں مِل گیا

70