عام بِک جاتے ہیں بیٹھے ہیں جو بازار میں لوگ
کب یقیں کرتے ہیں پڑھتے ہیں جو اخبار میں لوگ
دیکھا جو چشمِ بصیرت سے تو معلوم ہوا
کم ہیں جو صاحبِ معیار ہوں کردار میں لوگ
خوبیاں کچھ بھی عیاں ہوتی نہیں جیون بھر
بعد مرنے کے بیاں کرتے ہیں گفتار میں لوگ
ظاہری آنکھ سے یوں وہ جو نظر آتا نہیں
اس کو پا لیتے ہیں رہتے ہیں جو افکار میں لوگ
لے کے روحانی خزائن کوئی آیا جب بھی
رہ گئے پیچھے جو آگے بڑھے انکار میں لوگ
یوں تو مشکل نہیں سچّائی کی پہچان مگر
جانتے بوجھتے گھبراتے ہیں اظہار میں لوگ
جان و دل روح سبھی اس پہ فدا کر تے ہیں
اپنا سب کچھ ہی لُٹا کر ہوئے خوش پیار میں لوگ
وہ محبّت میں موا خات کے قائل نکلے
بعد ہجرت کے ملے ایسے بھی انصار میں لوگ
لوگ ایسے کہاں ڈھونڈو گے زمیں پر طارق
خود ہنسا جن پہ خدا ایسے تھے ایثار میں لوگ

65