جو بھی ملتا تھا مجھ سے بچپن میں |
یہ ہی کہتا تھا ایسے بچے سے |
کوئی امید رکھ نہیں سکتے |
اس کے کتنے سوال ہیں جن پر |
ہم نے سوچا نہیں کبھی ان پر |
کچھ تو ایسے سوال ہیں جن پر |
سوچنے سے ہی خوف آتا ہے |
شرک سرزد نہ کوئی ہو جائے |
اور ایمان ہم سے کھو جائے |
ایسے بچے کا کیا علاج کریں |
اس پہ سایہ کسی کا لگتا ہے |
کوئی دم کر کے پھونک دو اس پر |
باقی بچوں سے مختلف کیوں ہے |
وہ بہل جاتے ہیں کھلونوں سے |
یہ کتابوں میں کھویا رہتا ہے |
وہ بہت کھل کھلا کے ہنستے ہیں |
یہ تو خود میں ہیں کھویا رہتا ہے |
وہ بہت پر سکون سوتے ہیں |
رات آنکھوں میں یہ بتاتا ہے |
جانے اس کو تلاش ہے کس کی |
وقت سے پہلے آ گیا شاید |
یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے |
کوئی بتلاؤ کیا کریں اس کا |
معلومات