کبھی پہنچا ہی نہیں وہ مری تنہائی تک
مرے اندر نہیں ڈوبا کبھی گہرائی تک
ایک رسمی سا تعلق تھا کہاں تک جاتا
بات ٹھہری رہی اک عمر شناسائی تک
جب تعلق کو سمجھنے کی کبھی بات چلی
لفظ پھر لے کے گئے معرکہ آرائی تک
اب جو بیٹھے ہیں سمجھنے کو تباہی کی وجہ
مجھ پہ الزام بنی میری مسیحائی تک
اک سفر تھا کہ ابھی تک نہیں سمجھے شاہد
اک سفر تھا وہ تماشائی سے دانائی تک

48