کبھی پہنچا ہی نہیں وہ مری تنہائی تک |
مرے اندر نہیں ڈوبا کبھی گہرائی تک |
ایک رسمی سا تعلق تھا کہاں تک جاتا |
بات ٹھہری رہی اک عمر شناسائی تک |
جب تعلق کو سمجھنے کی کبھی بات چلی |
لفظ پھر لے کے گئے معرکہ آرائی تک |
اب جو بیٹھے ہیں سمجھنے کو تباہی کی وجہ |
مجھ پہ الزام بنی میری مسیحائی تک |
اک سفر تھا کہ ابھی تک نہیں سمجھے شاہد |
اک سفر تھا وہ تماشائی سے دانائی تک |
معلومات