دل اگر اپنا مسلمان کہیں ہو جاتا
صورتِ وصل کا امکان کہیں ہو جاتا
ہم نے سودا اِسے بس سود و زیاں کا سمجھا
دوستی ہوتی تو نقصان کہیں ہو جاتا
عمر بھر اوروں سے ہی ہم نے شناسائی کی
ذات کا اپنی بھی عرفان کہیں ہو جاتا
وقت گزرا ہے جو دن رات تگ و دو کرتے
کاش اس ذات پہ قربان کہیں ہو جاتا
ہم چلے آئے تھے محفل میں یہ امّید لئے
عام بخشش کا ہی اعلان کہیں ہو جاتا
پیار کی ایک نظر ہم پہ بھی پڑ جاتی اگر
جلوۂ حسن کا سامان کہیں ہو جاتا
سایہ بادَل کا مرے سر پہ حفاظت کرتا
راستہ میرا بھی آسان کہیں ہو جاتا
ہم کو حیوانوں سے خطرہ نہیں آزاری کا
صرف انسان جو انسان کہیں ہو جاتا
صاحبِ فہم و ذکا مانتے تجھ کو لیکن
اس طرح عقل کا فقدان کہیں ہو جاتا
ہم بھی کچھ دیر سکوں ، چین سے رہتے طارق
اپنے قابو میں جو شیطان کہیں ہو جاتا

1
77
پسندیدگی کا شکریہ ثاقب صاحب!

0