ہے بصارت تو کہیں چشمِ بصیرت ہی نہیں |
اشک بہتے ہیں مگر دل میں وہ رقّت ہی نہیں |
سارے سامانِ مدارات میسّر ہوں ہمیں |
تُو نہ ہو ساتھ تو ایسی کوئی چاہت ہی نہیں |
آئنہ صاف ہو دل کا ، تو نظر آتا ہے |
وہ تِرا چہرہ کہ ویسی کوئی صورت ہی نہیں |
ہم سفر کوئی تو ایسا ہو کہ رہ دکھلائے |
اب بھٹک جانے کی باقی کوئی ہمّت ہی نہیں |
اب تو پھولوں سے گزارا نہیں ہوتا اپنا |
اب جو کانٹوں کے بنا رہنے کی عادت ہی نہیں |
مستقل ایک تماشا ہے شب و روز بنا |
ان مناظر کے بدل جانے کی صورت ہی نہیں |
آسماں سے ہی کوئی آئے تو کچھ بات بنے |
اب زمیں میں تو رہی باقی فراست ہی نہیں |
تم دکھاتے ہو انہیں شمس و قمر کیا طارق |
آنکھ کے اندھے کہیں ، نور کی حاجت ہی نہیں |
معلومات