رات تاریک ہے تو شمع جلائے رکھنا
قافلے والو ذرا ربط بنائے رکھنا
جانتا ہوں کہ مرے آنے میں تاخیر ہوئی
اتنی سی بات پہ بس مُوڈ بنائے رکھنا
غمزہ و مژگاں کے افسوں سے ذرا پہلو تہی
ان پری زادوں سے دامن کو بچائے رکھنا
معذرت خواہی بھی گو قابلِ تحسین سہی
یہ بھی کیا جھُوٹ کے انبار لگائے رکھنا
جب تلک دل میں رہا راز ترے پاس رہا
تم بھی جذبات کو یوں دل میں چھپائے رکھنا
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبّت کے سوا
مری فطرت میں نہیں ناز اٹھائے رکھنا
رات کی گود میں معصوم جوانی پہ ستم
والئی شہر کوئی فرض نبھائے رکھنا
روشنی پہنچی نہیں درد کی کُٹیا میں امید
پر مرا فرض ہے احساس جگائے رکھنا

0
117