حسن کو لا جواب ہونا تھا
کِھل کے اس کو گلاب ہونا تھا
آج گہنا گئے سبھی سورج
آج اسے بے نقاب ہونا تھا
وہ گرا کر گزر گیا مجھ سے
دوست کو کامیاب ہونا تھا
کتنے ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں میں
سب کو ہی دستیاب ہونا تھا
خود کو میں نے جلا کے راکھ کیا
ایک بار آفتاب ہونا تھا
خون کے گھونٹ روز پیتا ہوں
خونِ دل کو شراب ہونا تھا
قطرے قطرے سے بن گیا دریا
بارشوں کو سیلاب ہونا تھا
"شیخ صاحب چلے ہیں میخانہ"
اب گناہ کو ثواب ہونا تھا
توڑ کر جام ہو گیا زاہد
مجھ کو کتنا خراب ہونا تھا
حالِ دل آج کہہ دیا شاہدؔ
مجھ کو آج انقلاب ہونا تھا

0
58