حال پر میرے مسکرائے بھی
آنکھ میں آنسو جھلملائے بھی
یہاں رشتے عجیب ہوتے ہیں
دھوپ دیتے ہیں اور سائے بھی
مجھ سے دھوکے کیے ہیں لوگوں نے
ان میں اپنے بھی ہیں پرائے بھی
ان سے رشتہ رکھوں میں اب کیسے
ان پہ اب اعتبار آئے بھی
اپنی عادت عجیب تھی کتنی
زخم کھائے بھی مسکرائے بھی
اب تو بس انتظار ہے شاہد
وہ مجھے آکے آزمائے بھی

0
91