حال پر میرے مسکرائے بھی |
آنکھ میں آنسو جھلملائے بھی |
یہاں رشتے عجیب ہوتے ہیں |
دھوپ دیتے ہیں اور سائے بھی |
مجھ سے دھوکے کیے ہیں لوگوں نے |
ان میں اپنے بھی ہیں پرائے بھی |
ان سے رشتہ رکھوں میں اب کیسے |
ان پہ اب اعتبار آئے بھی |
اپنی عادت عجیب تھی کتنی |
زخم کھائے بھی مسکرائے بھی |
اب تو بس انتظار ہے شاہد |
وہ مجھے آکے آزمائے بھی |
معلومات