ہونٹوں پہ ہنسی دل میں یہ رکھتے ہیں کدورت |
آرا بھی دیے جاتے ہیں کرتے ہیں نصیحت |
اے نغمہ سرا ذکرِ حسینہ ہو غزل میں |
کہتی ہے مجھے آکے یہ یاروں کی جماعت |
اس دور میں مجنوں کی محبت کے ہیں چرچے |
دل شوخ حسینوں سے لگا چھوڑو حکومت |
مے خانے میں چل اے کہ تجھے رقص دکھاؤں |
یہ رسمِ جواں مردی کہ بے جا ہے شجاعت |
اے شاعرِ نوخیز تجھے فکرِ امم کیوں |
جاتی ہے تو جانے بھی دو چھوڑو یہ شریعت |
یہ کوششِ پیہم تری بیکار رہے گی |
اب تو ہی بتا ہندؔ میں ممکن ہے خلافت |
سمجھے گا نہیں کوئی تیری آہ و فغاں کو |
اوروں کی طرح ترک کرو قومی عقیدت |
گر حسنِ خیالات کا معیار یہی ہے |
تو مجھ کو نہیں ایسے تخیل کی ضرورت |
معشوق کی زلفوں میں پلی میری غزل ہو |
اس بات سے سہمت نے مری شوخ طبیعت |
جن آنکھ کے تاروں میں نہیں اوجِ ثریا |
ان شوخ نگاہوں سے نہیں مجھ کو محبت |
گو رہروِ ماضی سا نہیں رکھتا جگر میں |
کرتا ہوں مگر ان سا دلیروں سے میں الفت |
دل تو ہی حسینوں کی اداؤں سے لبھا لے |
ہے میرے لئے سامنے عالم کی قیادت |
مجھ کو بھی محبت ہے کسی شوخ حسیں سے |
محبوب مگر مجھ کو ہے ملت کی امامت |
کیوں میرے مقدر کا ستارہ نہیں چمکے |
ہو مجھ کو بھی گر صحبتِ ابرار میں قربت |
بیزار ہوۓ جاتے ہیں لیتے ہیں اجازت |
کہتا ہوں جو یاروں کو چلو سیکھیں سیادت |
بیٹھے ہیں کسی زلفِ گرہ دار کی رہ میں |
کہتے ہیں چلو سیکھنے آدابِ زیارت |
کیوں شکوہ شکایت ہے تجھے مجھ سے جوانو! |
کچھ تو ہو نیا دیکھو کہ ہے میری ادارت |
ہے بات فقط اتنی سی ملت کے امامو ! |
کچھ فکرِ امم میں کروں کچھ تو بھی اے حضرت |
کہنا مرے یاروں سے ذرا واعظِ دل گیر |
ہے قوم جواں تیری جواں مردی سے ملت |
دریائے جنوں حسن و شبابوں میں نہ بہہ جا |
باقی ہے ابھی تیری جوانی کی قیامت |
میں شاہیِؔ دوراں ہوں مری شان نرالی |
ہے مجھ کو پسند شوخیٔ معشوقِ سیاست |
معلومات