کوئی جب جی کو بھانے لگ گیا ہے
مرا دل مسکرانے لگ گیا ہے
بے چا ری فاختائیں قید کر کے
خدا کو آزمانے لگ گیا ہے
دلوں کو کر دیا تھا دُور جس نے
دوبارہ آنے جانے لگ گیا ہے
کٹی تھی عمر جس کی ملحدوں میں
خدا کو پھر منانے لگ گیا ہے
تمہیں کیسے کروں راضی کہ دنیا
کہے گی پھر منانے لگ گیا ہے
گزاری عمر ساری سرکشی میں
خدا نشتر چلانے لگ گیا ہے
ہوئی ہے منتشر بزمِ نگارش
قلم آنسو بہانے لگ گیا ہے
چھِڑا جب ذِکرِ نوشہرہ تو واللہ
مِرا دِل کسمسانے لگ گیا ہے
غرُوبِ عمر کی ہے آمد آمد
بَدَن گھنٹی بجھانے لگ گیا ہے

76