دردِ ہِجراں تُجھے چُھپاتے ہوئے
اشک بہتے ہیں مُسکراتے ہوئے
ٹُوٹ سکتی ہے ڈور سانسوں کی
سانس کے اِس طرح سے آتے ہوئے
اپنے حِصّے کا تُم جلاؤ دِیا
کچھ نہ سوچو دِیا جلاتے ہوئے
مَیں گُزر جاؤں اِس زمانے سے
تجھ سے عہدِ وفا نبھاتے ہوۓ
گِر پڑا تھا مگر وہ ٹُوٹا نہیں
چل رہا ہے جو لڑکھڑاتے ہوئے
اس کے لہجے میں پیار تھا مانی
مُجھ کو میری غزل سُناتے ہوۓ

0
140