دیکھنے میں بھی اسے ایک جھلک جاؤں گا |
یہ الگ بات کہ مے بن کے چھلک جاؤں گا |
اُس کے چہرے پہ سبھی رنگ ہی کِھل جاتے ہیں |
دیکھنے رنگوں سے بنتی میں دھنک جاؤں گا |
اس کی آنے سے چمن یوں ہی معطّر ہو گا |
ساتھ اس کے جو رہا میں بھی مہک جاؤں گا |
اس کے انوار کی کرنوں سے منوّر ہو کر |
ایک دن دیکھنا میں بھی تو چمک جاؤں گا |
میں نے رکھا جو قدم اس کے قدم سے آگے |
کیا ضمانت کہ میں رستہ نہ بھٹک جاؤں گا |
ایک عالم نے پیا اس کی محبّت کا نشّہ |
اتنا کم ظرف نہیں میں کہ بہک جاؤں گا |
وقت لگتا ہے کسی طفل کو بالغ ہوتے |
میں کوئی غنچہ نہیں پل میں چٹک جاؤں گا |
لمحہ لمحہ جو خیال آتا ہے اس مہ رُخ کا |
اب وہ لے جائے جہاں تک بے دھڑک جاؤں گا |
وہ بھی رکھتے ہیں مری آمد و رفتن پہ نظر |
میں رقیبوں کو بہت جلد کھٹک جاؤں گا |
آبلہ پا ہوئے کتنے جو سفر پر نکلے |
میں ترے ساتھ مگر حشر تلک جاؤں گا |
پیر ہن چاک ہوا عشقِ بتاں میں طارق |
عمر بھر سیتے ہوئے اس کو تو تھک جاؤں گا |
معلومات