کھلے بندوں عبادت ہو رہی ہے
زمیں پر کیوں بغاوت ہو رہی ہے
عدالت میں سماعت ہو رہی ہے
بڑی مشکل وضاحت ہو رہی ہے
سکھائی جس نے مجھ کو ہے محبّت
فقط اس کی اطاعت ہو رہی ہے
قصور اس میں کسی کا بھی نہیں ہے
مرے اندر قیامت ہو رہی ہے
نکل آیا ہے سورج صبحِ نو کا
زمیں پر اب حرارت ہو رہی ہے
جو منہاجِ نبوّت پر ہے قائم
جہاں میں اب خلافت ہو رہی ہے
نصیب اپنا نہیں سب کا ہے جاگا
مبارک اب تو ساعت ہو رہی ہے
بچائے گا نظامِ نو یہ دنیا
اسی کی اب اشاعت ہو رہی ہے
لباس اپنے پرانے پھینک ڈالو
کہ تقویٰ کی ہدایت ہو رہی ہے
سِمٹتا جا رہا ہوں اپنے اندر
مجھے باہر ندامت ہو رہی ہے
مریضِ عشق نے پایا مسیحا
کہ دور اب تو نقاہت ہو رہی ہے
عیادت کو مری آئے ہیں طارق
تو لہجے میں حلاوت ہو رہی ہے

0
71