ہم ترے شہر میں اس طور گزارا کرتے
یاد کر کر کے ، تجھے روز پکارا کرتے
تیری خاطر ہی اتر آئے تھے میدان میں ہم
ورنہ ہر گام پہ ہم ، دنیا سے ہارا کرتے
وقت مشکل تھا ملاقات کا ساماں نہ ہوا
کیسے ممکن تھا کہ ہم تم سے کنارا کرتے
کب ہمیں دنیا کی آسائشیں تھیں مدِّ نظر
ہاں مگر تم بھی کسی روز اشارہ کرتے
جان دے کر بھی کہاں چین ہمیں آیا ہے
ہم تو ہر روز ہی اس جان کو وارا کرتے
رات بھر رقص کیا شمع کے پروانوں میں
ہم وہیں پر تھے ، اگر ذکر ہمارا کرتے
حُسن پر اپنے بھروسہ نہ اگر ہوتا اُنہیں
آئینہ دیکھ کے وہ خود کو سنوارا کرتے
وہ جو موجود تھا ہم سب کی تسلّی کے لئے
کچھ سنا کر اسے ہم ، بوجھ اتارا کرتے
چاند کو دیکھ کے ہم بھی تو سیہ راتوں میں
اپنی پلکوں پہ کبھی اشک ستارہ کرتے
طارق اب آ ہی گئے ہو تو انہیں بتلا دو
وہ سمجھ جاتے اگر غور دوبارہ کرتے

0
167