کتنی تکلیفوں سے آزادی ملی ہے |
درد، کوفت سے بھری یاد رہی ہے |
ان شہیدوں کی بھی قربانی اہم تھیں |
آنسو بھی آنکھ میں آنے سے نمی ہے |
انگریزوں کی غلامی سے پریشاں |
کاوشوں سے یہ بھی زنجیر ہلی ہے |
ظلم در ظلم لگاتار بپا تھے |
پر ڈٹے رہنے سے ہمت بھی بڑھی ہے |
مشترک فکر بہت رنگ بکھرتی |
فہم و ادراک سے بھی جلا ملی ہے |
ایک عرصہ کی مسافت نے تھکایا |
پھر سکوں کو ہی جگہ ملتی گئی ہے |
داستاں جب کبھی ناصر یہ چھڑی ہے |
ہر کسی میں تبھی ہلچل سی مچی ہے |
معلومات