کچھ روبرو تو کچھ پسِ دیوار کر گئے |
جو کام کوئی کر نہ سکا یار کر گئے |
وہ خیر جس سے پارسا نا آشنا رہے |
کرنے پہ آگئے تو گنہ گار کر گئے |
بولی لگی تو سارے سرِ عام بِک گئے |
جو با ضمیر تھے وہ سرِ دار کر گئے |
ہر رہنما نے بھیس بدل کر دئے فریب |
آتش کو باتوں باتوں میں گلزار کر گئے |
کہتے ہیں مختصر کسے شاعر سے پوچھئے |
کوزے میں بند کرنا تھا اشعار کر گئے |
معلومات