کچھ روبرو تو کچھ پسِ دیوار کر گئے
جو کام کوئی کر نہ سکا یار کر گئے
وہ خیر جس سے پارسا نا آشنا رہے
کرنے پہ آگئے تو گنہ گار کر گئے
بولی لگی تو سارے سرِ عام بِک گئے
جو با ضمیر تھے وہ سرِ دار کر گئے
ہر رہنما نے بھیس بدل کر دئے فریب
آتش کو باتوں باتوں میں گلزار کر گئے
کہتے ہیں مختصر کسے شاعر سے پوچھئے
کوزے میں بند کرنا تھا اشعار کر گئے

0
46