جانے ہر شخص محبت میں گرفتار ہے کیوں
ایک بے سود سی خواہش ہے سزاوار ہے کیوں
چند سانسوں کی یہ مہلت ہے سمجھتا کیا ہے
ایک دیوانہ خدائی کا طلب گار ہے کیوں
ایک قطرہ ہے سمندر میں گرے گا اک دن
یہ حقیقت ہے تو پھر اتنی پراسرار ہے کیوں
ایک وحدت ہے تو پھر اس سے جدائی کیوں ہے
جزو اس کا ہے تو پھر بیچ میں دیوار ہے کیوں
لوحِ محفوظ میں محفوظ مقدر ہے اگر
خون کا لوتھڑا پھر اتنا گنہ گار ہے کیوں

38