ہمارے ساتھ جو چلنا ہے چل سکو تو چلو |
گِرائے کوئی جو اُٹھ کر سنبھل سکو تو چلو |
زمانہ سوچ کے انداز کب بدلتا ہے؟ |
تم اپنی سوچ کا دھارا بدل سکو تو چلو |
تمہیں تما شۂ دنیا سے ہی نہیں فرصت |
جو اس سے جان بچا کر نکل سکو تو چلو |
یہاں پہ جسم کی طاقت پہ سب مدار نہیں |
غذائے روح پر جو پھول پھل سکو تو چلو |
ہمیں بھی داستاں اپنی تمہیں سنانی ہے |
ہمارے تجربے سے تم نہ ٹل سکو تو چلو |
سفر میں گھٹنوں کے بل برف پر گھسٹنا پڑے |
یہی ہے حکم وہاں تک جو چل سکو تو چلو |
ہے انقلاب مقدّر میں انہی قوموں کے |
خیال ان کے پرانے بدل سکو تو چلو |
تمہارے ساتھ جو طارق کی آشنائی ہے |
کڑی ہے دھوپ کہو اس میں جل سکو تو چلو |
معلومات