ہمارے ساتھ جو چلنا ہے چل سکو تو چلو
گِرائے کوئی جو اُٹھ کر سنبھل سکو تو چلو
زمانہ سوچ کے انداز کب بدلتا ہے؟
تم اپنی سوچ کا دھارا بدل سکو تو چلو
تمہیں تما شۂ دنیا سے ہی نہیں فرصت
جو اس سے جان بچا کر نکل سکو تو چلو
یہاں پہ جسم کی طاقت پہ سب مدار نہیں
غذائے روح پر جو پھول پھل سکو تو چلو
ہمیں بھی داستاں اپنی تمہیں سنانی ہے
ہمارے تجربے سے تم نہ ٹل سکو تو چلو
سفر میں گھٹنوں کے بل برف پر گھسٹنا پڑے
یہی ہے حکم وہاں تک جو چل سکو تو چلو
ہے انقلاب مقدّر میں انہی قوموں کے
خیال ان کے پرانے بدل سکو تو چلو
تمہارے ساتھ جو طارق کی آشنائی ہے
کڑی ہے دھوپ کہو اس میں جل سکو تو چلو

1
62
پسندیدگی کا بہت شکریہ جناب ناصر ابراہیم ! نوازش!

0