عمر بھر جس نے کبھی دھوکا دیا ہوتا نہیں |
کیا عجب اس کا خدا اس سے خفا ہوتا نہیں |
ہم بیاباں میں چلے تو راستہ تھا اجنبی |
ہم بھٹک جاتے اگر وہ آشنا ہوتا نہیں |
ہم بھنور میں ڈوب جاتے گر خدائے بحر و بر |
زندگی کی ناؤ کا خود ناخدا ہوتا نہیں |
جگ میں آتی ہے نظر جو روشنی پھیلی ہوئی |
تیرگی تھی ، ایک گر روشن دیا ہوتا نہیں |
ہم تعاقب میں اسی دنیا کے ہوتے اب تلک |
خواہشوں کو ہم نے قرباں گر کیا ہوتا نہیں |
جس بھروسے پر چلے دشمن فنا سب ہو گئے |
جس سے راضی ہو خدا ، بے آسرا ہوتا نہیں |
آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سو سو حجاب |
چشمِ بینا پر عیاں کیونکر خدا ہوتا نہیں |
رہنمائی خود نہ کرتا بھیج کر گر رہنما |
اس کے بندوں نے خدا کو پا لیا ہوتا نہیں |
گود میں بیٹھے ہیں اس کی مثلِ طفلِ شیر خوار |
اس سے رشتہ ، رحمِ مادر کا بڑا ہوتا نہیں |
اس کی خاطر جان گر دے دیں امانت اس کی ہے |
اس کا حق طارق کبھی ہم سے ادا ہوتا نہیں |
معلومات