کوئی تو روک بنے اس بلا کے رستے میں
خدا کا رحم ہی آئے وبا کے رستے میں
ہمیں تو پہلے ہی قربانیوں کی عادت ہے
“ نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں”
ملائیں ہاتھ لگائیں جو ہم کسی کو گلے
یہ ڈر ہے لے کے نہ جائے فنا کے رستے میں
اگرچہ کوششیں جاری ہیں جاں بچانے کی
ابھی ہے دیر مگر مُدّعا کے رستے میں
خدا کرے کہ توجّہ ہو ابنِ آدم کو
کہ توبہ ہو کوئی حائل سزا کے رستے میں
پکارتے ہیں سبھی منہ سے یوں تو مالک کو
عمل بھی کھینچے کوئی اس صدا کے رستے میں
لگا کے بیٹھے ہیں ٹیکے مگر ہیں کیا محفوظ
بدل کے لائے ہیں وہ جو ہوا کے رستے میں
حجاب سے نہیں خطرہ کرے حفاظت یہ
ہے عقل یہ کہ چلیں اب حیا کے رستے میں
ہمیں امید ہے طارق کہ لوگ جلدی اب
قدم ملا کے چلیں گے خدا کے رستے میں

0
97