ظاہر وہ یوں جمال تو پہلے نہیں ہوا |
جی اس طرح نہال تو پہلے نہیں ہوا |
آتی ہیں غیب سے جو زباں پر حکایتیں |
میں اتنا با کمال تو پہلے نہیں ہوا |
ہم بھی رہے ہیں اپنی طبیعت میں صاف گو |
پوشیدہ اپنا حال تو پہلے نہیں ہوا |
مدّت ہوئی ہے اس سے تعلّق ہوا مجھے |
ملنا اسے محال تو پہلے نہیں ہوا |
عرصہ ہوا ہے در پہ اس کے آ گئے تھے ہم |
وہ باعثِ ملال تو پہلے نہیں ہوا |
گو کاروبارِ زندگی معمول پر نہیں |
جینا یہاں محال تو پہلے نہیں ہوا |
گھڑیاں بھی گو لگیں مجھے اس کے بغیر دن |
دن ہفتہ ماہ و سال تو پہلے نہیں ہوا |
ہیں اس قدر جو دل ہوئے اس پر نثار یوں |
وہ ایسے مالا مال توپہلے نہیں ہوا |
جاں دے دیں لوگ اس کے اشارے پہ وہ مگر |
کچھ باعثِ قتال تو پہلے نہیں ہوا |
گو ہم نہ جیت پائے کبھی دوڑ وقت سے |
وقت ایسا لا زوال تو پہلے نہیں ہوا |
طارق کو کیوں کہو کہ وہ پابندِ نظم ہے |
وہ ایسا بے مثال تو پہلے نہیں ہوا |
معلومات