اب تو ڈھونڈے سے بھی ،استاد ،جو ڈانٹے ، نہ ملے |
کوئی ایسا ، جو کبھی درد کو بانٹے ،نہ ملے |
زندگی میں تو کبھی ، یاد نہیں ، ایسا ہوا |
ڈھونڈنے نکلا کوئی پھول ، تو کانٹے نہ ملے |
زندگی گزری ہے ، تنہائی کے آزاروں میں |
گو ملے ، جو نہ کسی بات پہ ڈانٹے ،نہ ملے |
جب تماشائی بنے دیکھیں ، لڑائی کو سبھی |
کم ہوا دیکھنے والوں کو بھی ، چانٹے نہ ملے |
کو چواں تانگے بنا کر بڑے حیران ہوئے |
مل گۓ گھوڑے جو ان کو کہیں سانٹے نہ ملے |
آگے بڑھ کر جو ملے تھے بڑے اخلاص کے ساتھ |
آشنا مل گئے ، پر دوست تو چھانٹے نہ ملے |
ہم جو طارق تری محفل سے چلے آئے ہیں |
مل گئی “ کوک “ تو اکثر ہمیں “ فانٹے”نہ ملے |
معلومات