نقاب چہرے سے گر وہ کہیں اُٹھا لیتا |
تو کون ہوتا نظر اس سے جو ملا لیتا |
اگرچہ حسن پسِ پردہ بھی قیامت ہے |
پہ حشر ہوتا اگر سامنے بُلا لیتا |
خیال آیا ہے جب وقت واپسی کا ہے |
میں اس کے دل میں بھی کوئی جگہ بنا لیتا |
اسیر یونہی رہا خواہشاتِ دنیا کا |
میں اس سے کہتا تو وہ قید سے چُھڑا لیتا |
نہیں تھا علم مجھے وہ بھی مل کے خوش ہو گا |
وگرنہ اس کو تو پلکوں پہ میں بٹھا لیتا |
دیارِ غیر میں اس نے خیال رکھا ہے |
کسی غریب کی پھر کیوں نہ میں دعا لیتا |
وہ اک خزانہ ہے ایسا کہ میرا بس جو چلے |
اسے نگاہوں سے دنیا کی میں چھپا لیتا |
پڑی نظر جو مری اس کے گھر پہ پہلی بار |
اسی کو مانگ لیا اس سے اور کیا لیتا |
ہے کون اس کے سوا تیرا چارہ گر طارق |
وہی تو ہے ترا ہر حال میں پتا لیتا |
معلومات