گو یہاں بھی حساب ہوتے ہیں
سب کہاں بے نقاب ہوتے ہیں
ہے مکافات ایک جاری عمل
رات دن احتساب ہوتے ہیں
تم نے پھینکے تھے ہر قدم کانٹے
اب جو رہ میں گلاب ہوتے ہیں
آئنہ جو ہمیں دکھاتے ہیں
سب ہمارے ہی خواب ہوتے ہیں
یہ جو عاشق ہیں اپنے دلبر کی
پڑھ کے بیٹھے کتاب ہوتے ہیں
غور کرنے کا وقت ہے کس کو
فیصلے یہ شتاب ہوتے ہیں
ہے لچک ان میں ڈھالے جانے کی
جذبے مثلِ تُر اب ہوتے ہیں
دیکھنا ٹھیس لگ نہ جائے کہیں
رشتے نازک حباب ہوتے ہیں
ہم نے کچھ تو غلط کیا ہو گا
کیوں یہ ہم پر عذاب ہوتے ہیں
کیا خدا کا مذاق اڑایا ہے
اس کے ہم پر عتاب ہوتے ہیں
لے کے کس کو اڑوں میں ساتھ اپنے
اب تو شاہیں غراب ہوتے ہیں
آپ صحرا میں جا کے دیکھیں تو
ہر قدم پر سراب ہوتے ہیں
مقصدِ زندگی کا لُبِّ لباب
دُور سارے حجاب ہوتے ہیں
آپ چکّر لگائیے صاحب!
ہم تو گھر پر جناب ہوتے ہیں
کیسے نکلے تھے گھر سے ہم طارق
آج وہ ہم رکاب ہوتے ہیں

81