نذر مصطفیٰ کی یہ جان و جگر ہے
زہے دان جن کا جہاں کی حصر ہے
قدم ان کے کرتے ہیں صحرا کو گلشن
انہی سے فروزاں دہر کا نگر ہے
صبا کب تو لائے گی پیغام اس کا
لگے مجھ کو پیارا نبی کا جو در ہے
ہیں مطلوب میرے بھی محبوبِ داور
جہاں جن کے ہر دم ہی زیرِ اثر ہے
ملی تاروں کو ان سے ہی ضوفشانی
انہی کا ہی ممنون مہر و قمر ہے
بلا لیں گے وہ ہی مجھے طیبہ میں
کٹھن اس نگر میں حزیں کی بسر ہے
اے محمود آقا ہیں نعمت کے داتا
عطائے نبی پر جہاں کی بسر ہے

33