اس سے مل کر خوشی کو بھول گیا
کب ہنسا تھا ہنسی کو بھول گیا
عشق ہے ذات کی نفی اور کیا
عشق کر کے خودی کو بھول گیا
اس گلی میں قدم گئے اور پھر
اپنے گھر کو گلی کو بھول گیا
جس کو خوابوں میں عمر بھر چاہا
آنکھ کھلتے اسی کو بھول گیا
زندگی میں ہوا ہوں یوں مصروف
خود کی ہی زندگی کو بھول گیا
جو مرا عکس بن کے گھورتا ہے
میں اب اس اجنبی کو بھول گیا
اب مجھے بھولنے کی عادت ہے
وہ بھی بھولا ہوں کیا میں بھول گیا
تم نے کیوں یہ مجھے اجازت دی
آج تو تم کو ہی میں بھول گیا
آج اپنا یہ حال ہے شاہدؔ
خود کو کیا بندگی کو بھول گیا

0
1
79
خود کو رکھ کر کہیں پہ بھول گیا
1) Wonderful

2)مگر قافیہ کیا ہے؟

3)ایک درستگی
اپنے گھر کی گلی کو بھول گیا

4) خیال کمال ہے
بس تکنیکی مسائل آڑے آتے ہیں
اصلاح لیتے رہیں
مگر
لکھنا مت چھوڑیے گا
خوش رہیں سدا
عدنان مغل