عدالت سے رہا ہو کر یہاں خود کو بَری سمجھے
حساب اک اور باقی ہے اگر تو آدمی سمجھے
صلاحیّت جنم دیتی ہے جذبہ آگے بڑھنے کا
ترقی گر نہ ہو پھر علم و دانش کی کمی سمجھے
یونہی ہم نے گزاری ، عمر ساری ، اب شعور آیا
وصالِ یار کو تخلیق کا مقصد ابھی سمجھے
نہ ہمدردی اگر دل میں ہوئی مخلوق کی پیدا
فراخی رزق میں ہو تب بھی اس کو مفلسی سمجھے
رموزِ بے خودی سے آشنائی ہی نہیں اس کو
جو اپنی ضد پہ اَڑ جانے کی عادت کو خودی سمجھے
جو دیکھے حضرتِ انساں کو حیرت میں وہ پڑ جائے
جسے شیطان ، بہکانے میں اپنی برتری سمجھے
مری باتیں سمجھ پائیں اگر وہ غور سے سن لیں
مگر باتوں کو میری وہ ہمیشہ سر سری سمجھے
ہمیں گو فلسفی ہونے کا دعویٰ تو نہیں طارق
سمجھنا چاہتا ہے جو وہی سمجھے ، یہی سمجھے

0
68