اوصافِ مصطفیٰ ہیں جو بے حساب ہیں
درجے حبیبِ رب کے ہی لاجواب ہیں
کہتے زباں سے ہیں جو منشا خدا کی ہے
سب قول فعل ان کے نور الکتاب ہیں
مانندِ ریگ ہی تھے انسان دہر کے
اک نظرِ ِکیمیا سے سب لعلِ ناب ہیں
جتنی بساط تھی میں اتنا سمجھ سکا
ہستی سے شانیں ان کی کرتی حجاب ہیں
ہر آگہی سے بڑھ کر درجے حبیب کے
ان کی ثنا کے اے دل انگنت باب ہیں
گم کردہ راہ تھے انساں دھوپ میں کھڑے
الطاف مصطفیٰ کے لائے سحاب ہیں
راندہ ہوں میں دہر کا ہو کرم کی نظر
بے حد خطائیں میری کم تر ثواب ہیں
ان کے عَلم تلے ہی فوزِ عظیم ہے
باغِ جناں کے رستے ان سے شتاب ہیں
محمود اس نظر سے پارس ہیں حجر بھی
آتی ہے ایک جن پر وہ لا جواب ہیں

159