اشک مژگاں پر کسی کی یاد میں آنے کے بعد
سوچتا ہوں کیسے بھولیں گے اسے جانے کے بعد
روح اک سیراب ہو کر اپنی منزل کو گئی
جاتے جاتے کر گئی بیتاب تڑپانے کے بعد
اک محبّت تھی زمیں سے آسماں پر لے گئی
عشق کا شعلہ دلوں میں اور بھڑکانے کے بعد
دوستی کی قدر و قیمت اس کے دل سے پوچھئے
جاں ہتھیلی پر لئے پھرتا تھا یارا نے کے بعد
پیرہن رنگین اس کا ہو گیا بہہ کر لہو
نقش اس کے سامنے آئے ہیں جاں جانے کے بعد
کوئے جاناں کی طرف رخصت ہوا اک ماہ رُخ
خوش ہوئے اس پر فرشتے پھول بر سانے کے بعد
ذکر اس کا ہر زباں پر اس طرح جاری ہوا
وہ ہوا دنیا سے رخصت سب کا بن جانے کے بعد
طالع اک ہیرا تھا جو ہم سے جُدا اب ہو گیا
پا گیا منزل وہ طارق جاں کے نذ رانے کے بعد

47