تمام عمر مجھے اضطرار کس کا تھا
نہ تھا یہ عشق تو پھر انتشار کس کا تھا
مرے وجود میں گر جھانکتا تو پا لیتا
مرا نہ تھا تو دلِ بے قرار کس کا تھا
وہ پاس تھا مرے پر دور تھا بہت مجھ سے
اسے وصال میں اب انتظار کس کا تھا
وہ شعر سن کے مرا پوچھتا ہے کس کا تھا
نہ تھا مرا جو اگر شاہکار کس کا تھا
مرا ہی نام لکھا تھا بڑے سے پتھر پر
وہاں نہ تھا میں اگر تو مزار کس کا تھا
بس ایک قطرۂ مے بھی نہ چھو سکا لب کو
یہ بات ہے تو عمر بھر خمار کس کا تھا
حساب ہر گھڑی منکر نکیر کرتے رہے
جو بخشنا تھا مجھے پھر شمار کس کا تھا
قدم قدم پہ بھٹکنا پڑا مجھے شاہد
نہ تھا خدا کا تو پھر اختیار کس کا تھا

0
74