ترا اقرار کرنا بھی تو کچھ انکار جیسا ہے |
یہ کیسا پیار ہے تیرا جو کچھ کچھ پیار جیسا ہے |
ترے ملنے سے بھی تجھ سے مرا ملنا نہیں ہوتا |
کہ تیرا بولنا مجھ سے عدم گفتار جیسا ہے |
کچھ اس کو نام تو دے جو مرے تو ساتھ رہتا ہے |
کہ ہے یہ رسمِ دنیا یا کوئی بیوپار جیسا ہے |
نہ ہو تو ساتھ میرے تو جہاں کس کام کا میرے |
ہر ایسا جیتنا میرا تو بھی اک ہار جیسا ہے |
تو آ کے پوچھ لے اک بار احوالِ مریضاں بھی |
تو ہے جس کا مکیں وہ دل مرا بیمار جیسا ہے |
کہ تجھ کو چوم لوں تو لب مرے بھی زخم کھاتے ہیں |
کہ کیسا پھول ہے تو بھی جو کچھ کچھ خار جیسا ہے |
میں رہتا ہوں جو آدھی نیند میں اب راتوں کو اکثر |
نشہ یادوں کا تیرا بھی تو اک خمار جیسا ہے |
سمجھ آتا نہیں اترانا وہ ترکِ وفا کر کے |
فخر جس پر تو کرتا ہے مجھے وہ عار جیسا ہے |
کرشمہ ہے تخیل کا کہ پہنچا ایسے درجے پر |
کھڑا ہوں اس کنارے پر تصور پار جیسا ہے |
کہ اب تو اپنی سوچوں پر مجھے کچھ سوچنا ہو گا |
کہ ہے وہ دشمنِ جاں مجھ کو لگتا یار جیسا ہے |
کوئی وقعت ہمایوں تیرے جذبوں کی نہیں ہے اب |
ترا چلنا وفاؤں پر یونہی بیکار جیسا ہے |
ہمایوں |
معلومات