گھر میں سامانِ مسرّت ہو تو گھر میں رہیئے
ورنہ محبوب کی آنکھوں میں ، نظر میں رہیئے
روک ایمان و عبادت کی ، وطن میں ہو تو
آپ ہجرت کی رعایت سے ، سفر میں ، رہیئے
سانس لینا بھی ہو دُشوار اگر اپنے گھر
جا کے پھر آپ کسی اور نگر میں رہیئے
اب کہاں لوگ ہیں سینے سے لگانے والے
وہ جو کہتے تھے کہ دل چھوڑ ، جگر میں رہیئے
چل دیئے آپ کہاں گاؤں کی جانب پھر سے
شہر خالی ہے تو کیوں آپ ڈگر میں رہیئے
انقلاب آتے ہیں جب قوم کو ہوش آتا ہے
آپ سپنوں میں ہی ، خطروں کے بھنور میں رہیئے
کشتئ نوح میں آئیں گے تو بچ جائیں گے
ورنہ غرقاب ہوں یا مدّ و جزر میں رہیئے
گرچہ جنَّت کی بشارت ہے یہاں بھی لیکن
آپ کی مرضی ہے چاہے تو سَقَر میں رہیئے
طارق اک چشمِ فسوں ساز کا ہے جادو ہوا
اب ہمیشہ کے لئے اُس کے اثر میں رہیئے

0
42