وہی غم جو تیرے فراق میں غمِ دو جہاں سے گزر گیا |
اسے اب بھی مجھ پہ ملال ہے کیوں نہ آسماں سے گزر گیا |
شبِ وصل عینِ مراد تھی پہ کیا کریں کہ گزر گئی |
اسے کیا خبر کوئی رات بھر ترے درمیاں سے گزر گیا |
کیا ہے ہجرو وصل کی داستاں کہ بیاں کروں تو نِرا زیاں |
یہاں ایسا کرب ہے جانِ جاں جو ترے گماں سے گزر گیا |
پھٹے چیتھڑوں میں جھُکی جھُکی کھڑی جسم و جاں میں گھُٹی گھُٹی |
یہ وہ جسم ہے مرے چارہ گر جو دکاں دکاں سے گزر گیا |
جسے جانتے رہے حِرزِ جاں وہی اصل میں تھا عدوئے جاں |
یہی تِیر ہے مرے ہم نشیں جو تری کماں سے گزر گیا |
سبھی انس و جاں مرے دیس کے بڑی قوتوں کے رہین ہیں |
اسی کشمکش میں حریفِ جاں سرِ لا مکاں سے گزر گیا |
جو چلوں تو لاکھوں رکاوٹیں جو رکوں تو لپٹی حکایتیں |
جو مروں تو لکھنا مزار پر غمِ خونچکاں سے گزر گیا |
یہ جوخواہشوں کے گلاب ہیں سبھی وہم ہیں سبھی خواب ہیں |
سبھی وہم ہیں سبھی خواب ہیں مَیں اسی گماں سے گزر گیا |
آ امید رختِ سفر کریں گئے موسموں کی نظر کریں |
ترے بعد بزمِ سخن سجے تو کہیں یہاں سے گزر گیا |
معلومات