آؤ پرانے دَور میں جا کر رہیں امید
سب کی سنیں اور اپنی بھی اُن سے کہیں امید
کیوں نا تراش لیں کسی پتھّر سے وہ صنم
روئیں تو اسکی آنکھ سے آنسو بہیں امید
بچّوں کی فیسیں کپڑے کتابیں اداسیاں
تنہائیوں کے زہر بھی آ کر ڈسیں امید
وارفتگی میں بھول کے صحرا کو چل دئے
پاگل تھے کیا کہ لوگ یوں پھبتی کسیں امید
درد و الم تو تھے ہی ہوئے دربدر بھی اب
ساتھی ہیں سارے ساتھ ہی اپنے رہیں امید
غربت زمین چیر کے پاتال تک گئی
جسموں کے کاروبار کی تہہ در تہیں امید
تجھ سے سوال کرتی ہے کُٹیا غریب کی
پھٹنے لگی ہیں جسم کی ساری نسیں امید
اس عالمِ جدید میں رہنے کے ہم نہیں
آؤ پرانے دَور میں جا کر رہیں امید
پہچان دورِ ابتلا کی ہے یہی امید
غیروں کو ترس آئے اور اپنے ہنسیں امید
گُزری ہے کیا ہجومِ غریبی میں زندگی
آنسو نہیں یہ دریا ہیں کیسے بہیں امید

56