حیراں ہمیں زمانے کی خبریں تو کر گئیں |
کب لوٹ کر ہماری بھی نظریں اُدھر گئیں |
جی خوش ہوا ہے منزلِ مقصود دیکھ کر |
ساری مسافتوں کی تکانیں اتر گئیں |
چلتے رہے ہیں قربتوں کی آس لے کے ہم |
کچھ اس طرح سے کر کے نگاہیں اثر گئیں |
پائی ہے اس کے ہاتھ سے ایسی شفا کہ لوگ |
حیرت سے پوچھتے ہیں کرابیں کدھر گئیں |
ہم نے جو اس کے پیار کو عادت بنا لیا |
یاد آئی جب بھی اس کی تو سانسیں بکھر گئیں |
کھویا جو اپنے ہاتھ سے اک قیمتی وجود |
آغوش میں جو بھرتی تھیں بانہیں کدھر گئیں |
ہم نے سنیں جو غور سے باتیں ضمیر کی |
قلب و نظر میں آئیں جو سوچیں نکھر گئیں |
طارق سے اس کا حال تو پوچھا نہیں کبھی |
اب وہ چلا گیا ہے اڑانیں جدھر گئیں |
معلومات