اس سفر کی تکان کیا کم ہے
زندگی امتحان کیا کم ہے
اور کیا کیا مصیبتیں ہوں گی
سر پہ اِک آسمان کیا کم ہے
ہم جو باہَر نظر نہیں آتے
دیکھنے کو مکان کیا کم ہے
لے کے جائے ہوا جہاں چاہے
جو بچا بادبان کیا کم ہے
ہم کو رہتا ہے انتظار اس کا
اس طرف اس کا دھیان کیا کم ہے
موت نے آ کے در پہ دستک دی
یہ جو دیکھا نشان کیا کم ہے
اور کیوں بوجھ ڈالتے ہو اب
روح یہ نا توان کیا کم ہے
کیوں نگاہیں ہوئی ہیں آوارہ
وہ حسیں مہربان کیا کم ہے
جلوۂ حسن کے نظارے کو
یہ زمان و مکان کیا کم ہے
کم ہوئی ہے سُخن کی گہرائی
سوچ کی اب اُڑان کیا کم ہے
میری تعریف اب نہ اور کرو
مجھ کو پہلے گمان کیا کم ہے
تُم جو اتنے گواہ لائے ہو
ایک میرا بیان کیا کم ہے
کس قبیلے سے ہو بتانے کو
روک دینا اذان کیا کم ہے
کیا ضرورت تھی تیغ لائے ہو
کاٹنے کو زبان کیا کم ہے
میرے گلشن کی آبیاری کو
ایک ہے باغبان کیا کم ہے
اس کڑی دھوپ میں مرے سر پر
طارق اک سائبان کیا کم ہے

1
129
پسندیدگی کا بہت شکریہ امبرین کنول صاحبہ !

0