اس نے جو بات بھی کی تھی وہ پشیمانی کی |
یوں لگا ہم نے تو ہر موڑ پہ نادانی کی |
ہم تو اُسلوبِ وفا سیکھ نہ پائے اب تک |
اس نے حد کر دی محبّت کی فراوانی کی |
شہر کا شہر امڈ آیا ہمیں سننے کو |
بات ہم نے تو فقط کر دی تھی ارزانی کی |
ہم نے آزادی کو ترجیح غلامی پر دی |
دل میں حسرت ہی رہی اس کے جہاں بانی کی |
یہ جو رونق نظر آتی ہے مرے گلشن میں |
باغباں ہو گا کوئی جس نے نگہبانی کی |
ہے یقیں مجھ کو مسخّر تو یہ ہو گی دنیا |
تُجھ کو خواہش بھی تو ہو تختِ سلیمانی کی |
اس نے عرصہ ہوا پیغام یہ لکھ بھیجا تھا |
آرزو تیری پسندیدہ ہے قربانی کی |
میں بڑے شوق سے آؤں گا ترے پاس مگر |
تُو نے تیّاری بھی کر رکھی ہے مہمانی کی |
طارق اس شہر میں آنے سے جو ڈر لگتا ہے |
کیا خبر پھیل گئی ہے تری من مانی کی |
معلومات