اس آرزو کو دل سے میں بھی سدا سنوں
وہ جلوہ ہو نظر میں صلے علیٰ پڑھوں
جب ہوش دیکھیں سپنا نورِ جمال کا
لمحات پیارے سارے دل میں چھپا سکوں
میری یہ آنکھ پر نم ہجرِ نبی میں ہو
ہو دید الضحیٰ کی میرا کہے جنوں
عاصی ہوں پر خطا ہوں پھر بھی ہوں ملتجی
جلوہ جمالِ جاں سے نظریں ہوں پر سکوں
آفاق میں ترانے دلبر کے جب سنوں
ہستی کے سنگ میں بھی صلے علیٰ پڑھوں
طالب مجھے ملے گر عشقِ حبیب کا
اس کے قدم کو میں بھی اس آنکھ پر رکھوں
یادِ نبی سے جب بھی دل کی کلی کھلے
من میں ادب سے آئے نعتِ نبی کہوں
محمود کی ندا بھی ہے بابِ مصطفیٰ
کہتا ہے جا کے اس جا ان کی ثنا کروں

42