دل محبّت میں کسی کی چُور رکھ
اور دل میں معرفت کا نُور رکھ
غیر کو بھی عشق کا تُو جام دے
خود کو بھی تُو ہر گھڑی مخمُور رکھ
ہو اگر انعام یا ہو ابتلا
جو بھی ہو اُس سے عطا منظور رکھ
لن ترانی سُن کے رہ اوقات میں
سامنے نظروں کے کوہِ طور رکھ
عاجزی لے لے تکبُّر کی جگہ
کامیابی میں یہی دستُور رکھ
چاہتا ہے تُو جو کوشش کا ثمر
اجر پورا دے اگر مزدور رکھ
دیکھنے کو منتظر ہے کائنات
یوں نہ اپنا حسن تُو مستور رکھ
کون ہے طارق تِرا تیرے سوا
خود کو اپنے آپ سے مت دور رکھ

0
55