اب جو پھیلی ہے یہ وبا کیا ہے
ساری خلقت کو اب ہوا کیا ہے
یرغمال اس نے کر لیا سب کو
اس سے آگے کی اب سزا کیا ہے
دور رہنے میں اب بھلائی ہے
یہ بھلا ہے تو پھر برا کیا ہے
کب سے گھر میں غریب بیٹھے ہیں
ان کے پاس اور اب بچا کیا ہے
جن کے پیارے بچھڑ گئے ان سے
ان کو تیرا اب آسرا کیا ہے
ابنِ آدم کی یہ خطا ہے اگر
در پہ تیرے یہ قفل سا کیا ہے
جن کے گھر میں کوئی چراغ نہیں
ان کو اندیشہِ ہوا کیا ہے
یہ اگر ابتدا ہے تو اس کی
تم بتاؤ کہ انتہا کیا ہے
کل جو ہو گا وہ جاں گزا ہو گا
آج جو ہو رہا برا کیا ہے

0
32