دھوکہ کبھی کسی کو بھی دیتے نہیں ہیں ہم
وعدہ کیا تو کر کے مُکرتے نہیں ہیں ہم
گو بیوفائی پائی مگر ٹالتے رہیں
داغوں کو اپنے ایسے دکھاتے نہیں ہیں ہم
مظلوم سے بنائے رکھی دوریاں بہت
شامل شریک غم بھی ہو سکتے نہیں ہیں ہم
مطلب پرستی عام سی بن اب چکی یہاں
اپنوں کے واسطے بھی تڑپتے نہیں ہیں ہم
فارغ ہوئی ہیں خیر سگالی کی باتیں بھی
بدلا ہے عصر، سوچ بدلتے نہیں ہیں ہم
سمجھائیں کس کو سارے ہی ناصؔر ذی فہم ہیں
جانیں مگر صحیح پرکھتے نہیں ہیں ہم

0
50