وہ جو آگ کا ہے دریا میں خوشی سے پار کرتا
وہ پلک سے گر اشارہ مجھے ایک بار کرتا
یہ فضائے بے یقینی یوں یقین میں بدلتی
وہ ذرا یقین رکھتا تو میں جاں نثار کرتا
مرے سامنے وہ آیا برسات کی جھڑی میں
مرے آنسوؤں کے موتی وہ کہاں شمار کرتا
مرا دوست تھا وہ جس نے مجھے زہر دے کے مارا
مرے سامنے تو آتا ذرا کھل کے وار کرتا
مری چپ بنی بغاوت مجھے سوئے دار لائی
جو میں راز کچھ اگلتا تمھیں شرم سار کرتا
یہ عجیب ہے محبت نہیں منطقوں کی قیدی
ذرا سوچ کر جو چلتا نہ یہ دل فگار کرتا
مرا راستہ غلط تھا نہ ہی خضر راہ میں تھا
کوئی ہاتھ تو پکڑتا اگر انتظار کرتا

0
65