کب ختم ہونے والا یہ انتظار ہے
یہ دل خزیں ہے مولا اور بے قرار ہے
حسنِ نبی کے جلوے چاہت حزیں کی ہیں
جس کا جہانِ من کو بھی انتظار ہے
منظر حسین سارے روضہ نبی کے ہیں
آمد بھی نوریوں کی پروانہ وار ہے
لیتے ہیں فیض ان سے دونوں جہان ہی
اور جانتے ہیں کس کو یہ اختیار ہے
اور سوختہ ہوا جو حبِ نبی میں دل
اس فیض سے وہ ریزہ دُر شہسوار ہے
حاصل گدا گری ہے جس کو بھی آپ کی
شاہوں میں بھی وہ برہ اک تاجدار ہے
محمود کر غلامی آلِ نبی کی تو
رحمٰں سے جن کو حاصل صبر و قرار ہے

39